اردو تفسیری ادب کا تجزیاتی مطالعہ
برصغیر کے اردو تفسیری ادب کا تجزیاتی مطالعہ لکھنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ واضح کیا جائے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں میں معرض تحریر میں آنے والا تفسیری ادب محض تقلیدی نوعیت کا نہیں بلکہ اس میں بہت سا اجتہادی اور تخلیقی مواد موجود ہے۔ اس کتاب کی تالیف کا دوسرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تقسیری ادب کے بارے میں بعض بدگمانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قران مجید کی تفسیر بیان نہیں فرمائی اور جس چیز کو ہم تفسیر کہتے ہیں وہ تابعین کے تفسیری اقوال ہیں جو اختلافات کا مجموعہ ہیں۔ کتاب میں اس تاثر کو غلط ثابت کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت میں سے ایک یہ ہے کہ اپ نے اللہ کی کتاب کی وضاحت بھی فرمائی تھی۔(ص:۲۹)(القیامتہ:۱۷۔۱۹)(النحل:۴۴)(آل عمران:۱۶۴) دوسرا تاثر یہ پھیلایا گیا ہے کہ روایات کی بنیاد پر کی گئی تفسیر، تفسیری اختلافات کا مجموعہ ہے اور اس سے اختلافات کا تو پتہ چلتا ہے لیکن اس سے ہدایت نہیں حاصل کی جا سکتی۔ یہ تاثر قرآن فہمی کی چودہ سو سالہ تاریخ پر خط تنسیخ چلانے کے مترادف ہے اور مفسرین کرام کی کاوشوں کی توہین ہے۔ اسی طرح یہ تاثر بھی اتنے تسلسل کے ساتھ پلایا گیا ہے کہ لوگ غیر شعوری طور پر اس کے ہم خیال ہو گئے ہیں کہ مفسرین نے قران کو اپنے گروہی نقطہ نگاہ کی تائید کے لیے استعمال کیا اور قران کو کتاب ہدایت نہیں بننے دیا۔ اس میں کسی حد تک صداقت موجود ہے لیکن سارے تفسیری سرمائے کو اسی تاثر کی نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جس تفسیر یعنی تفسیر طبری پر لوگوں نے بجا اور بے جا اعتراضات کیے ہیں وہی تفسیر لا تعداد محاسن کی بنا پر تفسیر کا بیش قیمت خزانہ بھی ہے۔
میں نے مکمل کوشش کی ہے کہ شواہد کی روشنی میں واضح کیا جائے کہ اس وقت ماثور تفسیر اپنی مثالی شکل میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں ماثور تفاسیر کی ایک لسٹ پیش کی گئی ہے جن کے مفسرین نے بجا طور پر دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صرف مستند روایات کو ہی جن پر کسی کے پاس انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں، اپنی تفسیر کو بنیاد بنایا ہے۔- Product Code: 0112
- Stock Remaining: 10
-
Rs1,000.00